اردو کے نظریہ ساز ناقدین ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کےتنقیدی نظریات کا تقابل اردو کے نظریہ ساز ناقدین Section Urdu Literature

##plugins.themes.academic_pro.article.main##

Abdul Majeed Saghar

Abstract

Literature is linguistic expression of aesthetic experimentation. It is criticized and evaluated by the critics. Dr. Wazir Agha and Dr. Gopi Chand Narang are critics of modernism and post modernism. Both have caste everlasting impact of their critical thoughts and ideas on Urdu literature. They have introduced modern theories of west in specific native (eastern) social, cultural and civilizational aspects. They have opened new horizon for the writers of Indo-Pakistan. In this article, their critical approach and comparative study has been highlighted and analysed.

##plugins.themes.academic_pro.article.details##

References

۱۔ ڈاکٹروزیر آغا۱۸۔ مئی۱۹۲۲ء کو سرگودھا کے گاؤں وزیر کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ۱۹۴۳ءمیں انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد ۱۹۵۶ءمیں’’ اردو ادب میں طنز و مزاح‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کھیتی باڑی ان کا پیشہ تھا۔ وہ اعلیٰ پائے کے شاعر ، عمدہ نثر نگار اور نہایت زیرک نقاد تھے۔ وہ مولانا صلاح الدین کی مجلے’ ادبی دنیا‘ کے شریک مدیر رہے ۔بعد ازاں انھوں نے ۱۹۶۶ءمیں ’اوراق‘ کا اجرا کیا اور تاحیات اس کے مدیر رہے۔انھوں نے جدید اردو نظم، انشائیے اور تنقید کے میدان میں بے بہا خدمات سر انجام دیں۔ ان کا انتقال۷۔ ستمبر۲۰۱۰ءکو ہوا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے تنقیدی مقالات و مضامین کے مجموعے نظم جدید کی کروٹیں(۱۹۶۳ء)، تنقید اور احتساب (۱۹۶۸ء)، نئے مقالات (۱۹۷۲ء)، تنقید اور مجلسی تنقید(۱۹۷۵ء)، نئے تناظر (۱۹۷۹ء)، دائرے اور لکیریں(۱۹۸۶ء)، تنقید اور جدید اردو تنقید(۱۹۸۹ء)، انشائیے کے خدوخال(۱۹۹۰ء)،ساختیات اور سائنس(۱۹۹۱ء)، دستک اس دروازے پر(۱۹۹۴ء)،معنی اور تناظر(۱۹۹۸ء)اور امتزاجی تنقید کا سائنسی اور فکری تناظر(۲۰۰۶ء) شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ان کی یک موضوعی تنقیدی کتب میں اردو ادب میں طنز و مزاح(۱۹۵۸ء)، اردو شاعری کا مزاج(۱۹۶۵ء)، تخلیقی عمل (۱۹۷۰ء)، تصورات ِعشق و خرد اقبال کی نظر میں(۱۹۷۷ء)، مجید امجد کی داستانِ محبت (۱۹۹۱ء)، غالب کا ذوقِ تماشا(۱۹۹۷ء) اور کلچر کے خدوخال(۲۰۰۹ء) شائع ہو چکی ہیں۔ ان کے انٹرویوز کے مجموعے مکالمات(۱۹۹۰ء)اور نئے مکالمات (۲۰۱۰ء) شائع ہو چکے ہیں۔ان کی آخری تنقیدی کتاب تنقیدی تھیوری کے سو سال (۲۰۱۳ء)میں شائع ہوئی۔
۲۔ وہاب اشرفی ،مابعدجدیدیت: مضمرات ممکنات، پورب اکادمی، اسلام آباد، ۲۰۰۷ء،ص ۳۹۲
۳۔ اردو زبان کے نقاد اور محقق گوپی چند نارنگ۱۱۔ فروری ۱۹۳۱ء کو موضع دُ کی،ضلع لورالائی، صوبہ بلوچستان میں پیدا ہوئے۔۱۹۴۸ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو (آنرز) کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد دہلی منتقل ہو گئے۔۱۹۵۴ء میں دہلی یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کا امتحان پاس کیا اور اسی یونیورسٹی سے۱۹۵۸ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ دہلی یونیورسٹی میں ان کا تقرّر بحیثیت لیکچرار۱۹۵۹ء میں ہوا۔ انھوں نے ویزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سےوسکاسن یونی ورسٹی میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ انھوں نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ملک سے باہر شکاگو، کیلیفورنیا، برکلے ،کولمبیا، نیویارک ،میکگل،مشی گن یونی ورسٹی کے علاوہ اورینٹل انسٹیٹیوٹ پراگ، چیکوسلواکیہ میں اردو زبان و ادب پر لیکچر دیے۔وہ اکتوبر ۱۹۷۴ء تک دہلی یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک رہے اور۱۹۷۴ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بطور یونی ورسٹی پروفیسر خدمت ِزبان و ادب اردو پر مامور ہوئے ۔اس وقت وہ دہلی میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے تنقیدی کتب میں ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں (۱۹۶۰ء)، اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو (۱۹۶۱ء)، اقبال جامعہ کے مصنفین کی نظر میں (۱۹۷۹ء)، انیس شناسی(۱۹۸۱ء)،اردو افسانہ: روایت اور مسائل(۱۹۸۱ء)، اسلوبیاتِ میر(۱۹۸۴ء)، سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ: اردو شاعری کا ایک تخلیقی رجحان(۱۹۸۶ء)، امیر خسرو کا ہندوی کلام(۱۹۸۷ء)، ادبی تنقید اور اسلوبیات (۱۹۹۱ء)،قاری اساس تنقید، مظہریت اور قاری کی واپسی(۱۹۹۲ء)، ساختیات ،پس ساختیات اور مشرقی شعریات (۱۹۹۳ء)، اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ(۱۹۹۵ء)، بیسویں صدی میں اردو ادب(۲۰۰۲ء)، اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب(۲۰۰۲ء)، اطلاقی تنقید: نئے تناظر(۲۰۰۳ء)، ہندوستان کی تحریکِ آزادی اور اردو شاعری(۲۰۰۴ء)، ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت(۲۰۰۴ء)، جدیدیت کے بعد(۲۰۰۵ء)،ولی دکنی:تصوّف، انسانیت اور محبت کا شاعر(۲۰۰۵ء)، اردو کی نئی بستیاں(۲۰۰۵ء)، اردو زبان اور لسانیات(۲۰۰۶ء)،سجاد ظہیر کی ادبی خدمات اور ترقی پسندی(۲۰۰۷ء)، فراق گورکھ پوری:شاعر ،نقاد ،دانشور (۲۰۰۸ء)،فکشن شعریات: تشکیل و تنقید(۲۰۰۹ء)، کاغذِ آتش زدہ(۲۰۱۱ء)، تپش نامہ اعمال(۲۰۱۲ء)، غالب :معنی آفرینی، جدلیاتی وضع ،شونیتا اور شعریات (۲۰۱۳ء) شامل ہیں۔
۴۔ وہاب اشرفی،مابعدجدیدیت:مضمرات و ممکنات،ص۳۸۸
۵۔ نظام صدیقی، مابعد جدیدیت کا فکری اور جمالیاتی مطالعہ،مشمولہ: اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ، مرتبہ: ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ،
سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور،ص۴۰۳
۶۔ گوپی چند نارنگ،ڈا کٹر، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۱۳ء، ص۱۰
۷۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، تنقیدی تھیوری کے سو سال، سانجھ پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۱۲ء، ص۱۸۰
۸۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، معنی اور تناظر، مجلس ترقی ادب ،لاہور،۲۰۱۶ء،ص۲۰۴
۹۔ وزیر آغا،ڈاکٹر، تنقید اور جدید اردو تنقید، انجمن ترقی اردو، کراچی،۱۹۸۹ء، ص۶۸
۱۰۔ گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر، ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات،ص۱۵۰
۱۱۔ ۔ ایضاًٍٍٍ۔،ص۱۵۱
۱۲۔ ۔ ایضاًٍٍٍ۔،ص۱۸۰
۱۳۔ ۔ ایضاًٍٍٍ۔،ص۲۴۱
۱۴۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، امتزاجی تنقید کا سائنسی اور فکری تناظر، اردو سائنس بورڈ ،لاہور ،۲۰۰۲ء،ص۱۸۰
۱۵۔ گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات،ص۲۴۲
۱۶۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، تنقید اور جدید اردو تنقید،ص۸۱
۱۷۔ وہاب اشرفی، مابعدجدیدیت:مضمرات و ممکنات،ص۳۹۷
۱۸۔ محمد علی صدیقی، ڈاکٹر،ما بعد جدیدیت:حقائق و تجزیہ، پیس پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۴ء، ص۴۵
۱۹۔ گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات،ص۱۷۱
۲۰۔ ۔ ایضاًٍٍٍ۔،ص۱۷۱
۲۱۔ وزیر آغا، ڈاکٹر،تنقیدی تھیوری کے سو سال،ص۲۸
۲۲۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، امتزاجی تنقید کا سائنسی اور فکری تناظر،ص۱۳۴
۲۳۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، نئے مقالات، جمہوری پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۱۳ء، ص۳۱
۲۴۔ وہاب اشرفی، مابعدجدیدیت: مضمرات و ممکنات ،ص۳۹۷
۲۵۔ گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر، جدیدیت کے بعد، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص۳۸
۲۶۔ ۔ ایضاًٍٍٍ۔،ص۳۹
۲۷۔ گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر، اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ، ص۷۲
۲۸۔ روف نیازی، مابعد جدیدیت، حلقہ آہنگ نَو، کراچی، ۲۰۰۳ء،ص۲۲
۲۹۔ شہزاد انجم، پروفیسر گوپی چند نارنگ: ایک عہد ساز نقاد، مشمولہ: ادبی تھیوری شعریات اورگوپی چند نارنگ ،مرتبہ: مشتاق صدف ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۱۴ء، ص۷۲
۳۰۔ محمد زکریا، خواجہ، مختصر تاریخ ادبیاتِ مسلمانانِ پاکستان و ہند، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، ۲۰۲۰ء، ص۱۰۷۴
۳۱۔ انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب کی تاریخ، عزیز بک ڈپو، لاہور، ۲۰۱۳ء، ص۶۶۴
۳۲۔ نظام صدیقی، مابعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک، کتابی دنیا، لاہور،۲۰۲۱ء، ص۴۱